جلسہ سالانہ جرمنی: قدم بقدم

(مضمون: مکرم الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ جرمنی)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے قیام کے جلد بعد احباب جماعت کے تقویٰ کا معیار بڑھانے، آخرت پر یقین میں اضافہ کرنے، باہمی محبت وو اخوت اور مودت کا رشتہ مضبوط کرنے، ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینےوالےحقائق و معارف اورربانی باتوں کے سننے کے لئے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا تھا۔ اس جلسہ کے شاندارمستقبل کے بارہ میں آپ نےفرمایا تھا:

اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱ ۳۴)

مسیح پاک ﷣ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ خدائی الفاظ یوں تو ابتداء سے ہی اپنی شان دکھانے لگے تھے تاہم جب اس جلسہ کی شاخیں قادیان سے نکل کر پہلے ربوہ، امریکہ ، انگلستان، غانا، نائیجیریا، انڈونیشیا ،جرمنی اور پھر دنیا کے بہت سے ممالک پر سایہ فگن ہونے لگیں تو ان الفاظ کے پورا ہونے کی الگ ہی شان نظر آنے لگی۔ ان جلسوں میں دور دراز کے ممالک سے مختلف اقوام کے احباب جماعت کےشامل ہونے کا منظر سیدنا حضرت مسیح موعود ﷣ کے اِن الفاظ سے رنگین ہوتا:

” اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی”

جلسہ سالانہ کی انہی شاخوں میں سے ایک شاخ یورپ کے ایک اہم ملک جرمنی پر بھی سایہ فگن ہے۔ یہاں جلسہ کا آغاز ۱۹۷۵ء میں ہوا جس میں شاملین کی تعداد قریباً ۷۰ تھی اور گزشتہ سال ۲۰۱۷ء میں منعقد ہونے والے ۴۲ ویں جلسہ سالانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کاروان کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر چکی تھی، الحمدللہ۔صرف ۷۰ افراد سے شروع ہوکر ۴۰ہزار تک پہنچنے والے اس جلسے کی قدم بہ قدم، مرحلہ در مرحلہ ترقی کی مختصر کہانی اس مضمون میں پیش کرنی کی کوشش کی جائے گی۔

جلسہ سالانہ جرمنی کا آغاز اور ہمبرگ میں انعقاد:

سب سے پہلا جلسہ سالانہ مسجد فضل عمر ہمبرگ میں ۲۸/دسمبر ۱۹۷۵ء کو بروز اتوار صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک منعقد ہوا ۔ اس کا افتتاح اور اختتام مکرم مولانا فضل الٰہی أنوری صاحب امیر و مبلغ انچارج جرمنی نے کیا۔ اس میں شامل ہونے والے احباب جماعت کی ایک فہرست ملی ہے جس میں ڈنمارک، فرانکفورٹ اور بعض دیگر شہروں سے شامل ہونے والے ۶۳ احباب و خواتین کے نام لکھے ہیں جبکہ چند منتظمین کے نام اس کے علاوہ ہیں، اس طرح اس کی مجموعی حاضری ۷۰ کے قریب تھی۔ اس اولین جلسہ سالانہ میں کل چھ تقاریر ہوئیں جن میں سے ایک تقریر ڈنمارک سے تشریف لائے ہوئے مکرم الحاج نوح سوین ہینسن صاحب (Mr. Svend Hansen) نے بھی کی۔

اس جلسہ میں حاضرین کے مابین تلاوت قرآن کریم، نظم خوانی، تقریر اور عام دینی معلومات کے مقابلے بھی ہوئے۔ اس جلسہ کی انتظامی کمیٹی امام مسجد فضل عمر ہمبرگ محترم حیدر علی ظفر صاحب کی زیر نگرانی مندرجہ ذیل تین کارکنان پر مشتمل تھی:

۱۔ مکرم نصیر الدین بٹ صاحب، ۲۔ مکرم مختار احمدصاحب، ۳ ۔ مکرم چوہدری رفیق احمد جاوید صاحب

(غیر مطبوعہ ریکارڈ تاریخ کمیٹی جرمنی)

جماعت احمدیہ جرمنی کا دوسرا جلسہ سالانہ ۸ جنوری ۱۹۷۷ء کو مسجد فضل عمر ہمبرگ میں ہی منعقد ہوا۔ یہ جلسہ دراصل گزشتہ سال ۱۹۷۶ء کا تھا جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے دسمبر میں منعقد نہ کیا جا سکاتھا۔ اس جلسہ کی انتظامی کمیٹی مندرجہ ذیل پانچ منتظمین پر مشتمل تھی:

۱۔ مکرم سید منصور احمد صاحب، ۲۔ مکرم عبدالجلیل بٹ صاحب، ۳۔ مکرم رفیق احمد جاوید صاحب، ۴۔ مکرم خورشید احمد صاحب، ۵۔ مکرم عبدالرشید خالد صاحب

اس جلسہ میں ہمبرگ سے باہر کی ۱۴ جماعتوں کے ۲۹ اور ہمبرگ سے قریباً ۱۲۰ نمائندگان نے شرکت کی۔ اس کا اِفتتاح اور اِختتام امیر و مبلغ انچارج جرمنی محترم حیدر علی صاحب ظفر نے کیا۔ آپ کے علاوہ مبلغ فرانکفورٹ محترم نواب منصور احمد خان صاحب اور دو نو احمدی جرمن دوستوں مکرم F. S. Kretschmar صاحب اور مکرم Herbert Gehrtsصاحب نے بھی تقاریر کیں۔ اس ایک روزہ جلسہ کے چار اجلاسات ہوئے اور بعض علمی مقابلہ جات بھی ہوئے جن میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے احباب میں ڈنمارک سے تشریف لائے ہوئے نواحمدی ڈینش دوست مکرم کمال کرو صاحب نے انعامات تقسیم کئے۔ (اخبار احمدیہ جرمنی جنوری ۱۹۷۷ء)

تیسرا جلسہ سالانہ بھی اسی سال مسجد فضل عمر ہمبرگ میں منعقد ہوا۔ اس مرتبہ جلسہ کا دورانیہ بڑھادیا گیا اور ۲۴ ، ۲۵ دسمبر ۱۹۷۷ء کو دو روز تک جاری رہا۔ اب تک ہونے والے دونوں جلسے جماعت ہمبرگ کی طرف منسوب تھے اور اس تیسرے جلسے کو جلسہ سالانہ مغربی جرمنی کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ اس میں انگلستان، ناروے اور جرمنی کے ۴۲ شہروں سے مجموعی طور پر ۲۵۰ احباب جماعت شریک ہوئے جن میں قریباً ۳۰ غیر از جماعت دوست بھی تھے، الحمدللہ۔

اس جلسہ کے لئے پہلی مرتبہ مرکز ربوہ سے وکیل التبشیر صاحب کا پیغام موصول ہوا جسے مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب سابق مبلغ جرمنی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کی افتتاحی اور اختتامی تقاریر امیر و مبلغ انچارج محترم حیدر علی صاحب ظفر نے کیں۔ ان کے علاوہ محترم نواب منصوراحمد خان صاحب مبلغ فرانکفورٹ اور مکرم نور احمد بولستاد صاحب امیر جماعت ناروے اور بعض مقامی مقررین نے بھی تقاریر کیں۔ (اخبار احمدیہ جرمنی جنوری ۱۹۷۸ء)

 اس جلسہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے دوسرے روز ۲۵ دسمبر کو لجنہ اماء اللہ کا بھی ایک علیحدہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں لجنہ کی حاضری ۲۰ تھی (اخبار احمدیہ جرمنی فروری ۱۹۷۸ء)

چوتھا جلسہ سالانہ جرمنی ۲۴ اور ۲۵ دسمبر ۱۹۷۸ء کو مسجد فضل عمر ہمبرگ میں ہی منعقد ہوا۔ اس کے انتظامات مبلغ ہمبرگ مکرم لئیق احمد منیر صاحب کے زیر نگرانی ایک کمیٹی نے کئے۔ اس کا افتتاح امیر و مبلغ انچارج مکرم نواب منصور احمد خان صاحب نے کیا۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی سویڈن سے مکرم عزت اولیوچ صاحب تھے۔اس جلسہ میں ایک مجلس سوال و جواب بھی ہوئی جو جملہ شرکاء کے لئے خاص دلچسپی کا باعث بنی۔ علاوہ ازیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دورۂ جرمنی و لندن کی متحرک فلم بھی دکھائی گئی۔ اس جلسہ کی حاضری ۱۶۰ تک گئی۔ (غیرمطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ)

1980ءمیں منعقد ہونےو الا دو روزہ جلسہ بھی 5اور 6 اپریل کو مسجد فضل ہمبرگ میں منعقد ہوا۔ گزشتہ سال ۱۹۷۹ء میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے جلسہ منعقد نہ ہوسکا تھا لہٰذا یہ جلسہ گنتی کے اعتبار سے پانچواں جلسہ سالانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمبرگ میں ہونے والا آخری جلسہ بھی تھا کیونکہ گزشتہ سالوں کے دوران بہت سے احمدی ہجرت کرکے جرمنی آچکے تھے اور ان میں سے بیشتر احباب کو فرانکفورٹ کے گرد و نواح یا جرمنی کے وسطی و جنوبی علاقوں میں آباد کیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے زیادہ تر احباب جماعت کا فرانکفورٹ پہنچنا نسبتاً آسان تھا، اس لئے انتظامی سہولت کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ جلسہ سالانہ فرانکفورٹ میں ہو اکرے گا۔

 پانچویں جلسہ سالانہ کا افتتاح اور اختتام امیر و مبلغ انچارج مکرم نواب منصور احمد خان صاحب نے کیا جب کہ لندن سے مکرم منیر الدین شمس صاحب نے بطور مہمان مقرر شرکت کی، آپ کی تقریر کا عنوان "انگلستان میں تبلیغ اسلام اور احمدیت کا مستقبل” تھا۔ اس جلسہ کے لئے ربوہ سے وکیل التبشیر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا پیغام بھی موصول ہوا۔ مقامی مقررین میں سے نو احمدی مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کی تقریر بعنوان "جلسہ سالانہ ربوہ اور قادیان کے دوران میرے تجربات” اور مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی تقریر بعنوان ” مغربی معاشرہ میں اسلامی طرز عمل کیسے اپنایا جاسکتا ہے” خاص طور پر دلچسپی کے ساتھ سنی گئیں۔ اس جلسہ میں بھی دوسرے روز لجنہ اماءاللہ کا ایک الگ سیشن ہوا۔ جلسہ کے آخری اِجلاس کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۷۰۰ تک جا پہنچی جو مسجد فضل عمر کی گنجائش سے کئی گنا زیادہ تھی۔(غیر مطبوعہ رپورٹ جلسہ ۱۹۸۰ء ریکارڈ تاریخ احمدیت جرمنی) چنانچہ اس کے لئے مسجد کے عقبی لان اور سامنے والےباغیچہ میں مارکیاں لگا کر انتظامات میں وسعت پیدا کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں احباب جماعت کوسڑک کے علاوہ ہمسایوں کے باغیچوں میں بھی بیٹھنا پڑا۔ (از یاد داشت محترم لئیق احمد منیر صاحب، منتظم اعلیٰ جلسہ)

جلسہ سالانہ جرمنی فرانکفورٹ میں:

1981ء میں جلسہ سالانہ جرمنی کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا اور اس جلسہ نے ہمبرگ سے سفرکرکے فرانکفورٹ میں آبسیرا کیا اور جماعت احمدیہ جرمنی کا چھٹا جلسہ سالانہ 18،19 اپریل 1981ء کو فرینکفرٹ کے ایک ہال(Haus Gallus, Frankenallee 111) میں منعقد ہوا۔

اس جلسہ کو انتظامی لحاظ سے پہلی دفعہ دس مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کی سربراہی میں ایک وسیع انتظامی کمیٹی مقررکی گئی۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی جرمنی میں غانا کے سفیر مکرم عمانویل مہمایعقوبو صاحب (EMANUEL MAHMA YAKUBU) تھے۔ اسی طرح مکرم میر مسعود احمد صاحب ڈنمارک اور مکرم عبدالعزیز فرحاخن صاحب ہالینڈ سے اس جلسہ میں شامل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ازراہِ شفقت تین صفحات پر مشتمل اپناخصوصی پیغام بزبان انگریزی جلسہ کے لئے ارسال فرمایا۔ علاوہ ازیں وکیل التبشیر صاحب کا بھی پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغامات امیر و مبلغ انچارج مکرم نواب منصور احمد خان صاحب نے پڑھ کر سنائے۔ اس جلسہ کی حاضری 750 رہی جو ایک نیا ریکارڈ تھا ۔(اخبار احمدیہ جرمنی مئی ۱۹۸۱ء)

اگلے سال مؤرخہ۱۰ اور ۱۱ /اپریل ۱۹۸۲ء کو ساتواں جلسہ بھی گزشتہ سال کی طرح فرانکفورٹ کے اسی ہال میں منعقد ہوا۔ اس کے لئے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور وکیل التبشیر صاحب کے پیغامات موصول ہوئے۔ اس جلسہ میں مرکز لندن سے محترم مبارک احمد ساقی صاحب مبلغ سلسلہ بطور مہمان مقرر شامل ہوئے۔ اس جلسہ کی حاضری62 7 تھی۔ (رسالہ "تحریک جدید جون ۱۹۸۲ءصفحہ ۱۰)

 مؤرخہ۲ اور۳ /اپریل ۱۹۸۳ء کومنعقد ہونے والے آٹھویں جلسہ سالانہ جرمنی میں مہمان خصوصی مبلغ اسپین مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب تھے۔ علاوہ ازیں مبلغ انگلستان مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے بھی بطور مہمان مقرر شرکت فرمائی۔ اس کی حاضری ۶۳۰ تھی۔یہ جلسہ فرانکفورٹ شہر کے وسط میں واقع ایک ہال Volksbildungsheim, Eschenheimer Anlage 40میں منعقد ہوا۔ اس ہال کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس سے قبل یہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ احباب جماعت کی اجتماعی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ( اخبار احمدیہ جرمنی مارچ ۱۹۸۳ء صفحہ ۴) مہمانوں کی رہائش کا انتظام فرانکفورٹ شہر اور مضافاتی بستیوں میں رہنے والے احمدیوں کے ہاں کیا گیا تھا جبکہ ضیافت کے لئے مسجد نور کے عقبی باغیچہ میں خیمہ لگا کر کیا گیا تھا۔ کھانا تیار بھی یہاں کیا جاتا تھا اور کھلایا بھی اسی جگہ جاتا تھا۔ جلسہ کے دوسرے روز خواتین نے جلسہ گاہ والے ہال کی دوسری منزل کے ایک کمرےمیں اپنا الگ جلسہ منعقد کیا۔ (از ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ، فائل جرمنی جنرل ۱۹۸۳ء صفحہ ۱۰۱)

ربوہ کی طرز پر اِنتظامی ڈھانچہ:

۱۹۸۳ء کے جلسہ سالانہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے انتظامات کے لئے جلسہ سالانہ ربوہ کی طرز پر پہلی مرتبہ ایک وسیع انتظامی ڈھانچہ بنایا گیا جس کے لئے مکرم عبدالباسط طارق صاحب مبلغ سلسلہ کو افسر جلسہ سالانہ مقرر کیا گیاجبکہ افسر جلسہ گاہ کے طور پر مکرم ناز احمد ناصر صاحب کو افسر جلسہ گاہ خدمت کی توفیق ملی۔ ان ہر دو افسران کی زیر نگرانی مختلف شعبوں کے منتظمین نے جلسہ کے انتظامات بڑی خوبی کے ساتھ سرانجام دئیے۔ (غیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ سالانہ) اس کے بعد ہر سال اسی طرز پر انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جانے لگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

افسران جلسہ سالانہ جرمنی

سالافسر جلسہ سالانہحوالہ
۱۹۸۳ ء و ۱۹۸۴ءمکرم عبدالباسط طارق صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ و اخبار احمدیہ جرمنی مئی ۱۹۸۴ء صفحہ ۹
۱۹۸۵ءمکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحباخبار احمدیہ جرمنی جولائی ۱۹۸۵ء صفحہ ۴
۱۹۸۶ء و ۱۹۸۷ءمکرم چوہدری مقصود احمد صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ سالانہ، اخبار احمدیہ جرمنی اپریل ۱۹۸۷ء صفحہ۱۱ و جولائی ۱۹۸۷ء صفحہ۱۰
۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۰ءمکرم چوہدری محمد شریف خالد صاحباخبار احمدیہ جرمنی جون جولائی ۱۹۸۸ء صفحہ ۲۱، اخبار احمدیہ جرمنی مئی ۱۹۸۹ء صفحہ ۲۹
۱۹۹۱ء تا۲۰۰۰ءمکرم عبدالرحمٰن مبشر صاحباخبار احمدیہ اکتوبر و نومبر ۱۹۹۱ء صفحہ۲۰، نومبر، دسمبر ۱۹۹۲ء صفحہ ۳۵، جون جولائی ۱۹۹۲ء صفحہ۲۷ و غیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ
۲۰۰۱ءمکرم مبشر احمد طاہر صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ
۲۰۰۲ء تا ۲۰۰۸ءمکرم زبیر خلیل صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ، اخبار احمدیہ متعلقہ سال
۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۱مکرم عبدالرحمٰن مبشر صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ و اخبار احمدیہ متعلقہ سال
۲۰۱۲ء تا ۲۰۱۴ءمکرم مظفر عمران صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ
۲۰۱۵ء تا حالمکرم محمد الیاس مجوکہ صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ

افسر ان جلسہ گاہ جرمنی

سالافسر جلسہ گاہحوالہ
۱۹۸۳ء و ۱۹۸۴ء مکرم ناز احمد ناصر صاحباخبار احمدیہ جرمنی مئی ۱۹۸۴ء صفحہ ۹
۱۹۸۵ء و ۱۹۸۶ءمکرم ملک منصور احمد عمر صاحباخبار احمدیہ جرمنی جولائی ۱۹۸۵ء صفحہ ۴ و غیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ سالانہ
۱۹۸۷ءمکرم لئیق احمد منیر صاحباخبار احمدیہ جرمنی جولائی ۱۹۸۷ء صفحہ۱۰
۱۹۸۸ء  
۱۹۸۹ء تا ۱۹۹۰ءمکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحباخبار احمدیہ جرمنی جون جولائی ۱۹۸۹ء صفحہ۲۴، اخبار احمدیہ جرمنی جون ۱۹۹۰ء صفحہ۳۶
۱۹۹۱ء تا۱۹۹۲ءمکرم عبدالشکور اسلم صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ سالانہ و اخبارِ احمدیہ جرمنی جون جولائی ۱۹۹۲ء صفحہ۲۷
۱۹۹۳ء تا ۱۹۹۴مکرم مقصود الحق صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ سالانہ
۱۹۹۵ءتا ۲۰۱۴ءمکرم حیدر علی ظفر صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ و اخبار احمدیہ متعلقہ سال
۲۰۱۵ء تا حالمکرم مظفر عمران صاحبغیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی فائل جلسہ سالانہ

فرانکفورٹ کے مذکورہ بالا ہال میں آخری مرتبہ جلسہ سالانہ کا انعقاد ۲۱ اور ۲۲/اپریل 1984ء کو ہوا۔ اس کے لئے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا خصوصی ولولہ انگیز پیغام موصول ہوا۔ مبلغ انچارج ہالینڈ محترم عبدالحکیم اکمل صاحب اور ڈینش نو احمدی دوست مکرم سیون ہانسن صاحب بھی شریک ہوئے۔اس جلسہ میں جرمنی کی ۵۸ میں سے ۵۰ جماعتوں کی نمائندگی ہوئی اور اس طرح سے حاضری ایک ہزار سے تجاوز کر گئی جس میں ۳۰۰ جرمن اور پاکستانی مہمان بھی شامل تھے۔ ایک شبینہ اجلاس بھی ہوا جس میں غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب بھی ہوئی۔ (از ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ، فائل جرمنی جنرل ۱۹۸۴ء صفحہ ۲۲۱)

جلسہ جرمنی کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل:

جلسہ کی حاضری میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی رہی اور ۱۹۸۴ء کے جلسہ میں اس قدر بڑھ گئی کہ بڑی اور کھلی جگہ کی ضرورت پڑگئی چنانچہ جماعت جرمنی نے وَسِّعْ مَکَانَکَ کا نظارہ یوں دیکھا کہ فروری 1985ء میں اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کو فرینکفرٹ کے جنوب میں 40کلومیٹر دور گروس گیراؤ(Gross Gerau) نامی شہر کے نواح میں کئی ایکڑ پر مشتمل ایک وسیع قطعہ اراضی عطافرمایاتھا جس کا نام ناصرباغ رکھا گیا تھا، چنانچہ 1985ء کا جلسہ سالانہ جماعت کی اپنی خریدکردہ اسی جگہ پر منعقدہوا جس کی الگ ہی شان تھی۔ ناصر باغ کے کھلے اور وسیع میدانوں میں کہیں جلسہ گاہ کے لئے مارکیاں لگائی گئیں تو کہیں لنگر خانہ کے لئے۔ مختلف دفاتر بھی چھوٹے چھوٹے ٹینٹ لگا کر بنائے گئے۔ ایک میدان کو کار پاکنگ کے لئے مخصوص کیا گیا۔ گویا ایک چھوٹا سا شہر، چھوٹا ربوہ بنا دیا گیا۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان، ذکر الٰہی، درود شریف کے ورد کے ساتھ ساتھ پاکیزہ نظموں،اعلانات اور نعرہ ہائے تکبیر نے قادیان اور ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ کر دی۔ احباب جماعت دور دراز سے قافلوں کی صورت میں بسوں اور کاروں میں پہنچتے تو ان کا روایتی انداز میں پر جوش استقبال کیا جاتا۔ ریلوے اسٹیشن سے بھی مہمانوں کو جلسہ گاہ لانے کا منظم انتظام کیا گیا تھا۔ غرضیکہ اپنی جگہ پر اور اتنی کھلی جگہ پر جلسہ کا اپنا ہی لطف تھا جس سے تمام شاملین جلسہ اپنے اپنے انداز اور ظرف کے مطابق محظوظ ہوتے اور جلسہ کی برکات سمیٹتے رہے، الحمدللہ۔ اسی سال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جرمن نژاد محترم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کو جماعت جرمنی کا نیشنل امیر مقرر فرمایا تھا اور یہ جلسہ انہی کی نگرانی میں انعقاد پذیر ہوا تھا ۔

 یہ جلسہ 22 اور 23 جون 1985ء کو منعقد ہوا۔ اس کی حاضری اللہ کے فضل سے بارہ سو سے تجاوز کرگئی جس میں آٹھ ممالک کی نمائندگی تھی جبکہ جرمن نژاد احمدی احباب کی تعداد ۲۵ تھی۔ مکرم سید کمال یوسف صاحب اور مکرم مصطفی ثابت صاحب بطور مہمان خصوصی اس جلسہ میں شریک ہوئے۔ اس جلسہ میں پہلی دفعہ اردو اور انگریزی تقاریر کا ترجمہ جرمن اور عربی زبان میں بھی کیا گیا۔ (از ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ، فائل جرمنی جنرل ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۰۷)

اس کے بعد 1994ء تک تسلسل سے تمام جلسے ناصر باغ میں ہی منعقد ہوتے رہے اور ہر سال گزشتہ سال کے تجربات کی روشنی میں انتظامات میں وسعت اور بہتری لانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ان میں سے 1986ءکے جلسہ میں پہلی دفعہ دونوں دن خواتین کا جلسہ بھی منعقد ہوا۔(غیر مطبوعہ ریکارڈ دفترتاریخ احمدیت جرمنی، فائل جلسہ سالانہ)

حضرت خلیفۃ المسیح کی جلسہ سالانہ جرمنی میں پہلی مرتبہ تشریف آوری:

اب تک ہونے والے سالانہ جلسوں کے لئے خلفائے وقت کے محبت بھرے پیغامات تو موصول ہوتے رہے تھے لیکن خلیفہ وقت کا بنفس نفیس کسی جلسہ میں ورود نہ ہوا تھا۔ جماعت جرمنی کو یہ سعادت اور برکت پہلی مرتبہ ۱۹۸۷ء میں اُس وقت ملی جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنےدورۂ ہالینڈ کے دوران اچانک پروگرام بنا کر اس جلسہ کو چند گھنٹوں کے لئے رونق بخشی۔

 حضورانور نےجلسہ کے پہلے روز ناصر باغ کے میدان میں بنائے گئے جلسہ گاہ میں خطبہ جمعہ ارشادفرمایا اور نمازیں پڑھائیں۔ حضورؒ کی آمد پر نعرے لگائے تو حضورانورؒ نے خطبہ جمعہ اِرشاد فرمانے سے قبل فرمایا کہ خطبہ جمعہ کے لئے جب امام آتا ہے تو اس وقت نعرےنہیںفف لگائے جاتے ہیں اور نہ ہی خطبہ جمعہ کے دوران۔ حضورؒ نے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ جرمنی کو پہلی صدی کے ختم ہونےتک ایک ہزار جرمن خدا کے حضور پیش کرنے کا ٹارگٹ دیا۔ نماز جمعہ کے فوراً بعدجلسہ کی افتتاحی اجلاس کی کارروائی حضور ؒ کی ہی صدارت میں شروع ہوئی۔ تلاوت اور نظم کے بعد فضانعروں سے گونج اُٹھی تو حضورؒ نے فرمایاکہ نعرے ’’کسی ترتیب سے لگائیں‘‘پھرحضورانورؒ نے خود نعرے لگوائے اور اسیران راہِ مولیٰ کا نعرہ لگاتے ہوئے حضورؒ کی آواز بھرّا گئی۔ نعروں کے بعد حضورؒنے فرمایا کہ آئیں اب دعا کرلیں۔ دعا کے بعد حضورؒ نے جلسہ کی کارروائی کوجاری رکھنے کا ارشادفرمایااور خود السلام علیکم کہہ کر تشریف لےگئے۔ اس جلسہ کے موقع پر پہلے روز حضور کے ساتھ جرمن تبلیغی نشست شام پانچ بجے ہوئی جس کے بعد بیعت کی تقریب بھی ہوئی جس میں پانچ جرمن اور عرب احباب نے حضورؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس جلسہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ جلسہ پہلی مرتبہ تین دن جاری رہا۔ (اخبار احمدیہ جرمنی مئی و جون ۱۹۸۷ء صفحہ ۹،۱۰)

جماعت احمدیہ جرمنی کو یہ غیر معمولی اعزاز اور خوش نصیبی حاصل ہے کہ7 198ء سے لے کراب تک کےتمام جلسہ ہائےسالانہ میں (1999ء ،2002ء اور 2006ء کے علاوہ) حضرت خلیفۃ المسیح بنفس نفیس رونق افرروز ہوتے رہےہیں، الحمدللہ۔

ناصر باغ میں ہونے والے جماعت جرمنی کے تیرھویں جلسہ سالانہ ۱۹۸۸ء کو حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے بابرکت وجود سے فیضیاب کیا اور ولولہ انگیز افتتاحی و اختتامی خطابات کے علاوہ ایک روح پرور مجلس عرفان میں احباب جماعت کے سوالات کے جوابات بھی عطا فرمائے۔ سوئٹزرلینڈ سے مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب نے بطور مہمان مقرر شرکت فرمائی اور اس جلسہ کی حاضری پانچ ہزار سے زائد رہی۔

صد سالہ جشن تشکر کے سال کا عظیم الشان جلسہ سالانہ :

جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر سارے عالم احمدیت میں ۱۹۸۹ء کےسال جشن تشکر منایا گیا۔ اس سال ۱۲ تا ۱۴ مئی کو جرمنی میں ہونے والا جلسہ سالانہ کئی اعتبار سےایک خاص شان کا حامل تھا۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے حاضرین جلسہ کو تین بصیرت افروز خطابات سے نوازا۔ تیسرا خطاب حضور نے خواتین کے پنڈال میں تشریف لے جا کر فرمایا اور جلسہ جرمنی میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا۔ جرمن مہمانوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب بھی منعقد ہوئی جس میں ۳۵۰ مہمان شامل ہوئے۔ مجموعی حاضری ۷۰۰۰ سے زائد رہی جس میں ۱۵ ممالک کے ۱۶۵ نمائندگان بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں مقامی شہر کی انتظامیہ کے دو ارکان اور مغربی جرمنی میں کینیا کے سفیر نے بھی شرکت کی۔ اس سال تمام تقاریر کا جرمن اور انگریزی زبانوں میں رواں ترجمہ پیش کیا گیا۔

اس جلسہ میں ایک خصوصی سیشن سیرت النبی ﷺ کے عنوان سے بھی ہوا جس میں لندن سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب ، مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب ، مولانا مبارک احمد ساقی صاحب اور اور سپین سے تشریف لائے ہوئےمکرم مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب نے خطاب کیا۔

اس جلسہ کے اختتامی اجلاس میں جشن تشکر کے موقع پر تیار کی گئی ایک خصوصی یادگار پلیٹ امیر صاحب جرمنی نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کی، اسی طرح مکرم عبدالسمیع عارف صاحب نے منارۃ المسیح کا ایک خوبصورت ماڈل حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت پائی۔ موصوف نے جلسہ کے سٹیج کے لئے بھی لکڑی سے منارۃ المسیح تیار کیا تھا جس میں مقررین نے کھڑے ہو کر تقاریر کی تھیں۔ اسی جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت جرمنی سے اپنے غیر معمولی پیار کا اظہار فرماتے ہوئے سومساجد سکیم عطا فرمائی تھی۔ (اخبار احمدیہ جرمنی جو جولائی ۱۹۸۹ء صفحہ ۲۳ تا ۲۶)

1990ء کے جلسہ سالانہ میں تاریخ میں ایک نیا سنگ میل آیا جب جلسہ کی حاضری دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ یہ جلسہ یکم تا تین جون 1990ء کو ناصر باغ گروس گیراؤ میں منعقد ہوا۔ اب ناصر باغ کے اندر کار پارکنگ کی گنجائش نہ رہی تھی چنانچہ اس کے لئے اس کے جنوبی طرف واقع ایک بہت بڑے زرعی کھیت کو کرائے پر حاصل کیا گیا۔ جلسہ کی حاضری ہر سال تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی تھی حتی کہ 26تا28 اگست 1994ء کو ناصرباغ میں منعقد ہونے والے جلسہ کی حاضری 23ہزار تک پہنچ گئی اور اس کے لئے ناصرباغ جیسی وسیع وعریض کھلی زمین بھی ناکافی ہوگئی۔ اور ۳۵۰۰ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے ہمسایہ کا کھیت بھی ناکافی ہوگیا۔ ( الفضل انٹرنیشنل ۹ ستمبر ۱۹۹۴ء صفحہ اول) گاڑیوں کی کثرت کے پیش نظر اس جگہ ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے۱۹۹۴ء کے بعد مقامی شہری انتظامیہ نے ناصر باغ میں جلسہ منعقد نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔

ناصر باغ سے مئی مارکیٹ تک:

ناصر باغ بھی دیکھتے دیکھتے چھوٹا پڑ گیا گویا وَسِّعْ مَکَانَکَ کا الہامی حکم ایک مرتبہ پھر پورا کرنے کا وقت آگیا۔ چنانچہ فرانکفورٹ کے نواح میں کسی بڑی جگہ کی تلاش میں جلسہ کی انتظامیہ فرانکفورٹ سے 90کلومیٹر دور ایک معروف شہر من ہائم کی مائی مارکیٹMaimarkt پہنچی تو اس کے وسیع وعریض احاطہ میں ہال اور دیگر سہولتوں کے پیش نظر اسی جگہ کو جلسہ گاہ بنانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ چنانچہ 8تا 10 ستمبر 1995ء کو اسی جگہ جماعت احمدیہ جرمنی کا ۲۰ واں جلسہ سالانہ منعقدہوا۔

مردانہ جلسہ گاہ مئی مارکیٹ کے مسقف حصہ میں بنایا گیا جس کی وسعت کے پیش نظر فکر تھا کہ کیسے بھرے گا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ پہلے روز ہی آخر تک بھر گیا۔ جلسہ کی مجموعی حاضری ۱۷ ہزار سے زیادہ رہی جس میں ۳۰ ممالک کے افراد شامل تھے۔ لجنہ اماء اللہ کے لیے مارکی لگا کر جلسہ گاہ بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کھانے کے لئے بھی مارکیاں لگا کر وسیع پیمانہ پر انتظام کیا گیا تھا۔ ایک حصہ پرائیویٹ خیمہ جات کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ گاڑیوں کے لئے بہت بڑی پارکنگ اس احاطہ سےباہر تھی۔ یہاں رجسٹریشن اور داخلہ کے لئے باقاعدہ انتظام کی وجہ سے حفاطتی انتظامات میں بہت سہولت ہوگئی۔ اسی طرح احاطہ کے اندر پختہ سڑکوں اور بیوت الخلاء کی سہولت بھی موجود تھی۔ ایک بہت بڑی سہولت یہ بھی تھی کہ حضرت امیر المومینن کی رہائش کے لئے بھی یہاں جگہ میسر آگئی تھی جس کے نتیجہ میں حضور انور جلسہ گاہ میں رہائش رکھتے اورجہاں فرانکفورٹ سے جلسہ گاہ تک کے روزانہ کا سفر بچتا وہاں حضور اقدس کی جلسہ گاہ میں ہمہ وقت موجودگی سے احباب جماعت برکات جلسہ سے کئی گنا مستفیض ہوتے، تمام نمازیں حضور کی اقتداء میں ہوتیں، بہت سی ملاقاتیں جلسہ کے دوران ہو جاتیں اور کئی دیگر پروگراموں میں بھی حضور اقدس کے لئے بآسانی تشریف لانا ممکن ہو جاتا ۔ غرضیکہ بہت سے پہلؤوں کے اعتبار سے یہ جگہ ہمارے جلسہ کے لئے بے حد موزوں ثابت ہوئی اور یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶ سال (۲۰۱۰ء) تک بڑی سہولت اور کامیابی کے ساتھ جلسے منعقد ہوتے رہے۔

من ہائیم میں ہونے والے جلسوں کا مختصر تذکرہ:

جلسہ سالانہ 15تا 17 اگست 1997ء کی خاص بات حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بابرکت شمولیت کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعض بزرگ ہستیوں کی جرمنی کے جلسہ میں شمولیت بھی تھی۔ ان بزرگان میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ،مکرم صاحبزدہ مرزا مسرور احمد صاحب(خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) ، مکرم سید میر محمود احمدناصرصاحب، مکرم مرزاعمر احمد صاحب مع بیگم صاحبہ شامل تھے۔ مجموعی حاضری ۲۱ ہزار تھی جس میں ۳۰ سے زائد ممالک سے تشریف لانے والے مہمان شامل تھے۔اس جلسہ سے حضور انور رحمہ اللہ نے خطاب فرماتے ہوئے جماعت جرمنی کو سو مساجد منصوبہ کی یاددہانی کرائی اور اس کے لئے اپنی طرف سے نیزمرحومہ اہلیہ اور بچیوں کی طرف سے مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ مارک کے وعدہ کا اعلان فرمایا۔ (الفضل انٹرنیشنل لندن ۱۲ ستمبر ۱۹۹۷ء صفحہ ۱۶)

اگلے سال ہونے والے ۲۳ ویں جلسہ سالانہ ۱۹۹۸ء کے انتظامات کے لئے ۶۲ شعبہ جات قائم کئے گئے تھے جن میں ۴ ہزار کارکنان نے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ حاضری ۲۳ ہزار سے زائد تھی۔

جلسہ سالانہ ۱۹۹۹ء کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تشریف نہ لا سکے۔ اس سال امیر و مبلغ انچارج غانا مکرم عبدالوہاب آدم صاحب مہمان خصوصی تھے۔ آپ نے ہی لوائے احمدیت لہرایا اور اپنے مخصوص لہجہ کے ساتھ اردو زبان میں خطاب کیا جو سامعین کے لئے خاص دلچسپی کا باعث بنا۔

سال ۲۰۰۰ء میں جلسہ سالانہ جرمنی کی سلور جوبلی کا سال تھا۔ اس جلسہ میں جرمنی سمیت ۴۰ مختلف ممالک سے تشریف لائے ہوئے ۳۳ہزار مہمانوں نے شرکت کی۔ مہمان مقررین میں پاکستان سے محترم مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب جبکہ لندن سے مولانا نصیر احمد قمر صاحب شامل تھے۔ اس موقع پر دس زبانوں میں رواں ترجمہ کا انتظام بھی کیا گیا۔

مرکزی جلسہ سالانہ ۲۰۰۱ء کا جرمنی میں انعقاد:

 2001ء میں برطانیہ کےبہت سے علاقے Foot & Mouth نامی بیماری کی زد میں تھے جس کی وجہ سے برطانیہ میں جلسہ سالانہ ملتوی کرنا پڑا۔ چنانچہ جماعت جرمنی کی درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مرکزی جلسہ سالانہ کی میزبانی کا شرف جماعت جرمنی کو عطا فرما دیا اور اس طرح سے اس سال جرمنی میں ہونے والا ۲۱ واں جلسہ سالانہ انٹرنیشنل مرکزی جلسہ قرار پایا۔ اس جلسہ میں ایک رپورٹ کے مطابق 60سے زائد ممالک کے 48،600 افراد کی اس جلسہ میں شمولیت ہوئی۔ انٹرنیشنل جلسہ ہونے کی وجہ سے اس سال عالمی بیعت بھی جرمنی کے جلسہ میں ہی ہوئی۔ جس میں 300 سے زائد اقوام کے 8 کروڑ 10 لاکھ 6ہزار سات سو اکیس افراد کی بیعت ہوئی۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ اس جلسہ کی تمام کارروائی براہِ راست تمام دنیا میں نشر کی گئی۔ اس جلسہ کے موقع پر جرمنی کے صدر عزت مآب یوہانس راؤ اور بہت سے حکومتی و غیر حکومتی عمائدین کے خیر سگالی کے پیغامات بھی موصول ہوئے جو اس جلسہ میں پڑھ کر سنائے گئے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 8شمارہ 36 ،07؍ستمبر 2001ء صفحہ اول)

اس مرکزی جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ آخری مرتبہ جرمنی تشریف لائے تھے اور حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ سے افتتاح فرمایا اور مرکزی جلسہ کی طرز پر دوسرے اور تیسرے روز خطابات فرمائے۔ اس سال قادیان سے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، ربوہ سے مکرم نواب منصور احمد خان صاحب اور لندن سے مکرم مولانامنیر الدین شمس صاحب اور مولانا  نصیر احمد قمر صاحب نے بطور مہمان مقرر شرکت فرمائی۔ (احمدیہ جرمنی ستمبر ۲۰۰۱ء صفحہ اول و دوم)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جلسہ سالانہ ۲۰۰۲ء کے لیے اپنی شدید علالت کے باعث تشریف نہ لا سکے تھے جس کی وجہ سے جلسہ کا ماحول اداس رہا تاہم خلافت احمدیہ کے ۲۳ ہزار پروانوں نے حضور اقدس کی صحت و درازیٔ عمر کے لئے پرسوز دعاؤں سے فضا کو معمور رکھا۔ اس سال قادیان سے مکرم مولانا حکیم محمد دین صاحب ،ربوہ سےمکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اورلندن سےمکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے شرکت فرمائی اور حاضرین سے خطاب کیا۔

خلافت خامسہ کے دور کا پہلا جلسہ سالانہ جرمنی:

22تا 24 اگست 2003ء کو منعقد ہونے والا جماعت احمدیہ کا 28واں جلسہ خلافت خامسہ کے دور کا پہلا جلسہ تھا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ویزہ کی مشکلات کے باوجود تشریف لاکر اپنے وجود باجود سے برکت بخشی اور 31 ہزار شاملین جلسہ کو اپنے خطابات سے نوازا۔ اِس جلسہ کے مہمان مقررین میں وکیل اعلیٰ تحریک جدید پاکستان مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اوروکالت تبشیر لندن میں متعین مبلغ سلسلہ مکرم اخلاق احمد انجم صاحب شامل تھے۔

۲۰۰۴ء کے جلسہ سالانہ جرمنی کا افتتاح بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ سے فرمایا، اس سے قبل حضور نے ایک مختصر تقریب میں حسب معمول و روایت لوائے احمدیت لہرایا۔ دوسرے روز حسب معمول لجنہ اماء اللہ سے خطاب فرمایا اور تیسرے روز حضور انور کے اختتامی خطاب سے جلسہ ختم ہوا۔ اس جلسہ میں ربوہ سے ناظر اصلاح و ارشاد مکرم راجہ نصیر احمد صاحب اور کینیڈا سے مبلغ سلسلہ مکرم مبارک احمد نذیر صاحب نے بطور مہمان مقرر شرکت فرمائی۔ دوسرے روز جرمن مہمانوں کے ساتھ ایک نشست بھی ہوئی جس میں حضور انور نے بھی خطاب فرمایا۔

۳۰ویں جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۰۵ء کا عنوان "وصیت ” تھا کہ امسال حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ برطانیہ کے موقع پر احباب جماعت کو نظام وصیت کی طرف خصوصی توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ اس جلسہ میں پاکستان سے مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ نے تشریف لاکر "نظام وصیت کے ذریعہ نظام نو کی بنیاد” کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ علاوہ ازیں محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتی سلسلہ بھی امسال مہمان مقرر تھے۔ ( غیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی، فائل جلسہ)

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۰۶ء اپنے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے محروم رہا۔ تاہم اس سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کے نام ایک محبت بھرا پیغام ارسال فرمایا۔ لندن سے مکرم مولانا لئیق احمدطاہر صاحب اور مکرم مولانا نصیر احمد قمر صاحب نے تشریف لاکر خطاب فرمایا۔ اس جلسہ میں ۲۹ ممالک کے ۲۰ ہزار احباب نے شرکت کی۔ (اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر ۲۰۰۶ء صفحہ اول و ۳)

۳۱ /اگست و یکم اور ۲ ستمبر ۲۰۰۷ء کو جماعت احمدیہ جرمنی کا ۳۲ واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری سنائی کہ جماعت جرمنی نے اپنے پچاس فیصد چندہ دہندگان کو نظام وصیت میں شامل کرکے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے جو حضور نے جماعت جرمنی کو دیا تھا۔ اس جلسہ کی حاضری ۲۸ ممالک سے تشریف لائے ہوئے ۲۶ ہزار سے زائد مہمانوں پر مشتمل تھی۔اس جلسہ کے مہمان مقرر قادیان سے تشریف لائے ہوئے مکرم مولانا محمد عمر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد تھے۔جلسہ کے انتظامات کے لئے ۵ ہزار سے زائد رضاکار دن رات مصروف عمل رہے۔ (اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر ۲۰۰۷ء صفحہ اول)

ہر چند کہ گزشتہ کئی سال سے جلسہ کی تقاریر بالخصوص حضور انور کے خطابات ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں رواں نشر کئے جارہے تھے تاہم اس جلسہ کے دوران مکمل کارروائی اور دیگر پروگرام بھی جلسہ گاہ میں قائم کئے گئے عارضی ٹرانسمیشن سٹیشن کے ذریعہ سے نشر کئے جانے لگے۔ اس کے بعد سے ہر جلسہ پر یہی معمول چلا آرہا ہے ۔ (غیر مطبوعہ ریکارڈ دفتر تاریخ جرمنی ، فائل جلسہ)

صد سالہ خلافت جو بلی:

۲۰۰۸ء کے سال ہونے والا جلسہ سالانہ صد سالہ خلافت جوبلی سے منسوب تھا۔ چنانچہ جلسہ کی تمام تقاریر خلافت سےمتعلق مختلف عناوین پر تھیں۔ اس جلسہ میں ۴۰ ممالک سے ۳۷ ہزار مہمانوں نے شرکت کی۔ ۹ زبانوں میں تقاریر کا رواں ترجمہ پیش کیا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پہلے لوائے احمدیت لہرایا پھر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ دوسرے روز مستورات سے اور تیسرے روز اختتامی خطاب فرمایا۔ امسال ربوہ سے ناظر اصلاح و ارشاد مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب مہمان مقرر تھے۔ علاوہ ازیں ناظر اعلیٰ پاکستان محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور وکیل التعلیم تحریک جدید مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب بھی تشریف لائے تھے۔جلسہ کے انتظامات خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لئے۵ ہزار سے زائد کارکنان نے خدمت کی توفیق پائی۔

 (اخبار احمدیہ جرمنی اگست وستمبر ۲۰۰۸ء صفحہ اول و ۴)

جماعت احمدیہ جرمنی کا ۳۴واں جلسہ سالانہ ۱۴ تا ۱۶ اگست ۲۰۰۹ ء کو من ہائم کی مئی مارکیٹ میں منعقد ہوا جس میں ۴۴ ممالک سے آئے ہوئے ۳۲ ہزار سے زائد شمع خلافت کے پروانوں نے شرکت کی۔ امسال مہمان مقرر ناظر تعلیم ربوہ مکرم سید طاہر احمد شاہ صاحب تھے۔ جملہ تقاریر کے ۹ زبانوں میں رواں ترجمہ کا پہلی مرتبہ جدید آلات کے ذریعہ انتظام کیا گیا تھا۔ (اخبار احمدیہ جرمنی ستمبر ۲۰۰۹ء صفحہ اول )

۲۶ تا۲۸ جون ۲۰۱۰ء کو ہونے والا جلسہ جرمنی سانحہ لاہور کے فوراًبعد احباب جماعت کے کسی بھی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں اجتماع کا پہلا موقع تھا۔ اس اعتبار سے اگر ایک طرف ہر آنکھ اشکبار تھی تو دوسری طرف حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے ولولہ انگیز خطابات سے ہر احمدی کے دل میں ایک خاص جذبہ جوش مار رہا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر حضور انور نے حضرت مصلح موعود ﷛ کی ؏نظم دشمن کو ظلم کی برچھی سے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی نظم ؏ دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! خاص طور اپنے اختتامی خطاب سے پہلے پڑھوائیں۔ ان نظموں کو سن کر حاضرین کا جوش قابل دید تھا۔ حضور انور کے خصوصی ارشاد پر محترم امیر صاحب جرمنی نےاسی سانحہ کے حوالے سے شہادت کے موضوع پر تقریر فرمائی نیز مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب مرحوم نے بھی اس موقع کے لئے اپنے جذبات کو جرمن نظم میں ڈھالا۔ اس سال جلسہ کے لئے مکرم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ بطور مہمان مقرر تشریف لائے تھے۔ (اخبار احمدیہ جرمنی اگست و ستمبر ۲۰۱۰ء صفحہ اول و ۲ )

گزشتہ ۱۵ برس سے من ہائیم کی مئی مارکیٹ میں جلسہ سالانہ جرمنی کا انعقاد ہوتا چلا آرہا تھا، جیسا کہ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے واضح ہے کہ حاضری میں ہر سال مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، اسی اعتبار سے انتظامات میں بھی وسعت لانی پڑتی تھی۔ جس کی وجہ سے  بالآخر اتنی بڑی یہ جگہ بھی چھوٹی پڑ گئی اور وَسِّعْ مَکَانَکَ کے الہامی حکم پر عمل کرنے کا ایک دفعہ پھر وقت آگیا کیونکہ حاضری بڑھتے بڑھتے ۲۰۱۰ء کے جلسہ میں ۲۵ ہزار سے زیادہ ہوگئی تھی۔

نئی اور بہت بڑی جلسہ گاہ کارلسروئے کنونشن سنٹرKarlsruhe) (Messegelände :

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے 24-26جون 2011ء کوجرمنی کا 36واں جلسہ سالانہ پہلی دفعہ جرمنی کے شہر کارلسروہے کےکنونشن سنٹر Messegelände DM Arena میں منعقدہوا۔یہ جگہ فرانکفورٹ سے جانب جنوب ۱۶۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس کنونشن سنٹر میں ایک جیسے چار بڑے ہال ہیں اور ہر ہال ۱۲۵۰۰ مربع میٹر رقبہ کا ہے جس میں ۱۶۰۰۰ لوگوں کے لئے گنجائش ہے۔علاوہ ازیں کئی ہزار مربع میٹر پر مشتمل بہت سے چھوٹے بڑے ہال ، گیلریاں اور کمرے ہیں۔ یہ کمپلیکس ہر قسم کی جدید سہولتوں سے آراستہ ، صاف ستھرا اور نہایت خوبصورت ہے۔  ان چار ہالوں میں سے دو ہالوں کو مردانہ و زنانہ جلسہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا جبکہ باقی دونوں ہالوں کو مردوں اور خواتین کے کھانے اور رہائش کے علاوہ جماعتی دفاتر کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے عین درمیان میں ایک وسیع سبزہ زار ہے جہاں پرچم کشائی کے لئے چبوترہ بنایا جاتا ہے اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں کے لئے بھی اس جگہ خوبصورت ماحول میسر آجاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ کی رہائش اور دفاتر بھی اسی کمپلیکس کے اندر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضور انور بڑی سہولت سے جلسہ کے دوران مختلف پروگراموں کے لئے تشریف لاتے ہیں اور اپنا فیض شاملین جلسہ میں بانٹتے ہی، الحمدللہ۔

جماعت جرمنی کے اس ۳۶ ویں جلسہ سالانہ کے لئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ از راہ شفقت جرمنی تشریف لائے اور اپنے روح پرور خطابات سے نوازا، طلبہ و طالبات کے ساتھ علیحدہ علیحدہ طویل نشستوں میں بھی رونق افروز ہوئے اور نو احمدیوں کو بھی شرف ملاقات بخشا۔ اس سال حضور انور ایدہ اللہ کی خصوصی اجازت سے مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب نے ربوہ سے تشریف لاکر اور مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب نے کینیڈا سے تشریف لاکر خطاب فرمایا۔ اس جلسہ کے موقع پر ایک اہم تقریر "خلافت سے زندہ تعلق” کے موضوع پر مکرم مولانا منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کی تھی۔

اس کی کل حاضری 26،872(چھبیس ہزار آٹھ سو بہتّر)تھی۔ جو ۴۴ مختلف ممالک سے بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ اپنی ذاتی گاڑیوں میں بھی تشریف لائے تھے۔ ان ذاتی گاڑیوں کی تعداد شعبہ پارکنگ کے مطابق ۱۳۶۸۰ تھی۔ ان مہمانوں کی ضیافت کےلئے کھانے کی کل ۹۱۲ دیگیں تیار کی گئیں۔ (اخبار احمدیہ جرمنی جولائی اگست ۲۰۱۱ءصفحہ ۵۹ تا ۶۵)

اس وسیع جگہ پر جلسہ سالانہ گزشتہ سات سال سے بڑی کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ منعقد کیاجا رہا ہےاور حاضرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہر سال انتظامات میں وسعت لائی جا رہی ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال 42 ویں جلسہ سالانہ کے لئے بہت سے اِنتظامات اس کمپلیکس کے سامنے سڑک کی دوسری جانب پارکنگ میں کرنے پڑے۔ چنانچہ لنگر خانہ اور کھانے کی مارکیاں اس میدان میں لگائی گئیں، بازار تو پہلے سےہی اسی میدان میں لگایا جاتا تھا۔ اس طرح سے ۱۵۰۰ کے قریب پرائیویٹ خیمہ جات کے لئے اَور بھی دور کا میدان مخصوص کرنا پڑا۔ غرضیکہ ۴۱ ہزار سے زائد حاضری کے لئے اب یہ جگہ بھی چھوٹی ہوچکی ہے اور یہ اعداد و شمار دراصل سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیش گوئیوں پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ چنانچہ اب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کو حدیقۃ المہدی کی طرح کوئی کھلی جگہ تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے تاکہ اپنی ضرورت کے مطابق انتظامات میں وسعت کی جا سکے۔ اللہ کرے کہ پیارے آقا کی خواہش اور منشاء کےعین مطابق جماعت جرمنی کو جلد ایسی جگہ عطا فرمادے، آمین۔