حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ صاحب

مضمون :عزیزم ماہر احمدصاحب، متعلّم جامعہ احمدیہ جرمنی

اللہ تعاليٰ سے محبّت کرنے والے عاشقوں کو علم تھا اب وہ وقت ہے جب مسيح موعود کي آمد ہوگي کيونکہ اللہ تعاليٰ کي قديم سے يہ سنّت ہے کہ جب بھي دنيا ميں اندھيرا چھا جاتا ہے توخداتعاليٰ اپنے نبي کو مبعوث فرماتاہے۔ چنانچہ اللہ تعاليٰ سے خبر پاکر ايسے عظيم المرتبت بزرگان اپنا جان و مال قربان کرنے کي غرض سے امام مہديؑ کي خدمت اقدس ميں حاضر ہوگئے۔ ان بزرگان ميں سے ايک حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ صاحب بھي تھے، آپ کو 1897ء ميں حضرت مسيح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بيعت کرنے کي سعادت نصيب ہوئي۔ آپؓ کے ذريعہ سے ہي ہمارے خاندان ميں احمديت کا نفوذ ہوا تھا۔ حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ کے بھائي حضرت مولانا غلام عليؓ راجيکي خاکسار کے دادا جان مکرم منصور احمد تاثير صاحب مرحوم کے نانا تھے۔ آپ کے بعد خاندان ميں جس بزرگ کو ہدايت کے سر چشمے سے حصہ پانے اور صِرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ پر چلنے کي توفيق حاصل ہوئي وہ حضرت مولوي غلام نبي مصريؓ تھے، آپؓ کو اللہ تعاليٰ کے فضل وکرم سے 1898ء ميں حضرت مسيح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بيعت کا شرف حاصل ہوا اور آپ دونوں حضرت مسيح موعودؑ کے اس شعر کا مصداق بنے۔

ترجمہ: تونے انہيں گوبر کي طرح ذليل قوم پايا، تو تُو نے انہيں خالص سونے کي ڈلي کي مانند بنا ديا۔

اس مضمون ميں حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ کا تعارف پيش کرنا مقصود ہے۔

حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ

حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجيکي کا شمار سلسلہ عاليہ احمديہ کے ان بزرگوں ميں ہوتا ہے جو صاحب کشف و رؤيا تھے۔ آپ کي ولادت 1877ء اور 1879ء کے درميان ضلع گجرات (پاکستان) کے ايک گاؤں راجيکي ميں ہوئي۔ آپ کي والدہ ماجدہ کا نام آمنہ بي بي صاحبہ تھا۔ آپ کے والد کا نام مياں کرم الدين صاحب تھا۔

حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ کي والدہ نے ان کي پيدائش سے پہلے ايک رؤيا ميں ديکھا کہ ہمارے گھر ميں چراغ روشن ہواہے جس کي روشني سے تمام گھر جگمگا اُٹھا۔

بچپن کے کچھ سال گزارنے کے بعد آپ کے والد محترم نے آپ کو قرآن کريم سيکھنے کے لئے گاؤں کي ايک درسگاہ ميں بٹھاديا اور اس کے بعد ايک چھوٹے شہر مگووال کےپرائمري اسکول ميں داخل کراديا ۔ يہاں کي تعليم سے فراغت پانے کے بعد قصبہ کنجاہ کے مڈل اسکول ميں داخل ہوئےمگر ابھي تعليم پوري نہ ہوئي تھي کہ آپ کے بڑے بھائي مياں تاج محمود صاحب کا بعمر 23 سال انتقال ہوگيا۔ اس پرآپ کے والدمحترم نے ارشاد فرمايا کہ بيٹا!

’’اب تم ہمارے پاس ہي رہا کرو‘‘

چنانچہ آپ نے اسکول کي پڑھائي چھوڑ دي اور اپنے گاؤں ميں ہي مياں محمدالدين صاحب کشميري کے پاس پڑھناشروع کرديا۔ چونکہ مياں محمدالدين صاحب فارسي زبان سے خوب واقف تھے۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجيکي نے اپنے حالات زندگي کتاب ‘‘حياتِ قدسي’’ ميں تفصيل سے بيان کئے ہيں۔ جن ميں خانداني حالات سے لے کر عہدِطفوليت جواني اور بڑھاپے تک کے ايمان افروز واقعات نيز قرآنِ مجيد کے سينکڑوں معارف اور تقريبًا نصف صدي تک کي تبليغي مہمات کا ذکر درج ہے۔

حضرت مولانا غلام رسول راجيکيؓ مؤرخہ 15 دسمبر 1963ء کو اپنے موليٰ حقيقي کو پيارے ہوگئے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

آپ بہشتي مقبرہ ربوہ ميں مدفون ہيں۔