جماعت احمدیہ میں دارالقضاء

جماعت احمدیہ میں عہدِخلافتِ اُولیٰ تک تو دارالقضاء کسی باقاعدہ ادارہ کی شکل میں موجود نہ تھی اور اس سے متعلقہ معاملات حضرت مسیح موعودؑ یا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ ہی نپٹا دیا کرتے تھے۔ تاہم عہدِخلافتِ ثانیہ کے دوران جب قضائی معاملات میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے احمدیوں کے باہمی تنازعات حل کرنے کے لئے 1919ء میں باقاعدہ ایک نظام قائم کیا جس کا نام دارالقضاء ہے۔ تاکہ جماعت کے اندر ونی تنازعات کے ملکی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے جہاں تک ہوسکے ثالثی ادارہ کے طریق کار پر شریعتِ اسلامیہ کے مطابق عادلانہ فیصلے کئے جائیں۔ اس ادارہ کا قیام بلا شبہ حضرت مصلح موعودؓ کے سنہرے کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ ہے۔

دارالقضاء صرف دیوانی اور عائلی نوعیت کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہےنیز صرف انہی مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا ہے جن کی ملکی قوانین اجازت دیتے ہوں اور ان سے کسی قسم کا ٹکراؤنہ ہو۔ تنازعات کا فیصلہ کلیۃً قرآن و سنّت کی روشنی میں ترتیب دئے گئے قواعد و ضوابط اور اسلامی قوانین کے مطابق ثالثی کے طریق پر کیا جاتا ہے۔

جماعت احمدیہ عالمگیر روز بروز وسعت پذیر ہے۔ چنانچہ دارالقضاء جس کا قیام پہلے قادیان اور پھر تقسیم برصغیر کے بعد ربوہ میں ہوا، عہدِ خلافت رابعہ کے دوران بیرون پاکستان بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور اس وقت تک خلافتِ ا حمدیہ کے زیرِسایہ عاطفت اور خلیفۂ وقت کی براہ راست نگرانی میں 19 سے زائد ممالک میں قضاء کا نظام جاری ہے۔ جس کے نتیجہ میں احبابِ جماعت اپنے اپنے ممالک میں ہی دارالقضاء سے بسہولت رجوع کرتے ہیں۔

اپنے تنازعات کا فیصلہ دارالقضاء سے کرانے کے لئے فریقین اپنی رضامندی سے دارالقضاء کو تحریراً اختیار دیتے ہیں کہ وہ طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت ان کے تنازعہ کا فیصلہ کرے۔ دارالقضاء میں فریقین سے کسی قسم کے اخراجات وصول نہیں کئے جاتے۔ قاضی اوّل کے فیصلہ پر فریقین کو اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں خلیفۃالمسیح کے پاس بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ جس کی تفصیل اگلے صفحات پر دی گئی ہے۔ تاہم حلف یا باہمی رضامندی سے طے پانے والے فیصلوں پر اپیل کا حق نہیں ہوتا۔

قواعد و ضوابط دارالقضاء کے مآخذ

قرآن کریم:
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی آخری اور کامل شریعت ہے اور تمام اسلامی احکام کا حقیقی، اصل اور بنیادی منبع ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارےمیں رہنمائی موجود ہے۔ خصوصاًعدل و انصاف کا مضمون بڑی تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہےیہاں تک فرمایا کہ ‘‘کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو’’
چنانچہ اس اعتبار سے دارالقضاء کے قواعد و ضوابط کا اوّلین ماخذ قرآنِ کریم ہے۔

سنّت:
سنّت سے مراد آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآنِ شریف کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ رہے گی۔ دوسرے لفظوں میں قرآنِ کریم خدا کا قول ہے اور سنّت حضرت محمدﷺکا فعل ہے۔ چنانچہ دارالقضاء کے قواعد و ضوابط کا دوسرا ماخذ سنّت ہے۔

حدیث:
حضرت محمدﷺکے ان اقوال و ارشادات کو کہتے ہیں جو آپؐ کے صحابہ اور تابعینؒ سے مروی ہوں۔ ان ارشادات کو محدّثین نے بڑی محنت کے ساتھ اور تنقید کے بعد مختلف کتب کی صورت میں جمع اور مرتّب کیا۔

اجتہاد:
اگر درج بالا مآخذ سے کسی امر سے متعلق کوئی رہنمائی سمجھ نہ آئے تو پھر اجتہاد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے خلیفۂ وقت سے رجوع کیا جاتاہے۔ خلیفۂ وقت متعلقہ مسئلہ پرقرآن و سنّت اور حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں تحقیق اور مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں جسے پھر قانون کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔

دارالقضاء کی تشکیل

ادارہ دارالقضاء کا تنظیمی ڈھانچہ حسبِ ذیل ہے:

1۔ صدر قضاء بورڈ
2۔ ناظم دارالقضاء
3۔ ممبران قضاء بورڈ
4۔ قاضیانِ اوّل

ان سب کی تقرری خلیفۂ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے۔

صدر قضاء بورڈ:
صدرقضاء بورڈ کسی ملک کی جماعت کے نظام قضاء کا عمومی انچارج ہوتا ہے۔ امیر ملک اپنی سفارش کے ساتھ اس عہدہ کے لئے بعض نام خلیفۃالمسیح کی خدمت میں پیش کرتےہیں۔ خلیفۃالمسیح کی منظوری کے بعد صدرقضاء بورڈ کا تقرر عمل میں آتا ہے۔ تقرری کے بعد صدر قضاء بورڈ خلیفۃالمسیح کو جواب دہ ہوتا ہے اور سارے قضاء کے نظام کو خلیفۃالمسیح کی رہنمائی میں چلاتا ہے۔

ناظم قضاء:
ناظم دارالقضاء کا تقرر صدر قضاء بورڈ کی سفارش پر خلیفۃالمسیح کی منظور ی سے ہی ہوتا ہے۔ ناظم دارالقضاء ہر ملک میں قائم مرکزی دفتر دارالقضاء کا انچارج ہوتا ہے اور قضاء کے جملہ دفتری و انتظامی معاملات کا ذِمّہ دارہوتا ہے۔

ممبران قضاء بورڈ:
ممبران قضاء بورڈ اپیلوں کی سماعت کرتے ہیں۔ ان کی تقرری کے لئے صدر قضاء بورڈ Senior قاضیان کے نام خلیفۃالمسیح کی خدمت میں منظور ی کے لئے پیش کرتے ہیں۔ خلیفۃالمسیح کی منظوری کے بعد وہ بحیثیت ممبر بورڈ کام کرتے ہیں۔ اپیلوں کی سماعت کے علاوہ جملہ ممبران بطور قاضی اوّل مقدمات کی ابتدائی سماعت بھی کرتے ہیں۔

قاضیان اوّل:
صدر دارالقضاءکی طرف سے قاضیان اوّل کی تقرری کے لئے صاحبِ علم اور صائب الرائے افراد کے نام خلیفۃالمسیح کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ خلیفۃالمسیح کی منظوری کے بعد قاضی اوّل کاتقرر عمل میں آتا ہے۔

دارالقضاء کا طریق کار

کسی تنازعہ کی صورت میں ملکی ناظم دارالقضاء کے نام متأثرہ فریق درخواست دیتا ہے جس پر ناظم صاحب دارالقضاء مقدمہ کی سماعت و فیصلہ کے لئے قاضی اوّل کا تقرر کرتے ہیں۔ اس سے قبل دفتر قضاء ثالثی اقرار نامہ بحق دارالقضاء فریقین سے پُر کرواتا ہے جس کے ذریعہ اختیار سماعت و فیصلہ مقدمہ قاضی اوّل کو دیتے ہیں اور عائلی معاملات کی صورت میں تحکیم کا عمل بھی مکمل کرواتا ہے۔ اس کےبعد مقدمہ کی باقاعدہ کارروائی متعلقہ قاضی صاحب اوّل شروع کرتے ہیں۔

دفتری کارروائی مکمل ہونے کے بعد متعلقہ قاضی صاحب کی طرف سے اس مقدمہ کی مسل تیار کی جاتی ہے جس میں مقدمہ کا جملہ ریکارڈ ہوتا ہے۔ پھر باقاعدہ سماعت کے لئے فریقین کو ایک مقررہ تاریخ پر قضاء میں حاضر ہونے کی تحریری طور پر اطلاع دی جاتی ہے۔ ابتدائی کارروائی کے بعد عرضی دعویٰ کی نقل دے کر فریقِ ثانی سے ایک مقررہ تاریخ تک تحریراً جواب طلب کیا جاتا ہے۔ جواب دعویٰ میں اگر فریقِ ثانی کی طرف سے کوئی نیا سوال اُٹھایا گیا ہو یا کوئی اَمر وضاحت طلب ہو تو فریقِ اوّل کو حق دیا جاتا کہ وہ جواب دعویٰ میں اُٹھائے گئے نئے امور کا جواب دےاور وضاحت طلب امور کی وضاحت کرے۔ اس کے بعد قاضی صاحب فریقین کو بُلا کر مقدمہ کی سماعت کرتے ہیں اوران سے گواہان کے نام اور مطالبات طلب کرتے ہیں۔ فریقین کے دعویٰ و جواب دعویٰ اور جواب الجواب کو مدّنظر رکھ کر فریقین کے گواہان کی شہادتیں قلم بند کی جاتی ہیں۔ شہادت تحریری ہو یا زبانی فریق مخالفت کو اس پر جرح کا موقع دیا جاتا ہے۔ قلم بند کی گئی شہادت گواہ کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے اور اس پر گواہ کے دستخط لئے جاتے ہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے قاضی مذکور اگر ضروری سمجھے تو خود بھی کوئی شہادت طلب کر سکتا ہے۔ اور ایسی شہادت بھی فریقین کی موجودگی میں لی جائے گی۔ اور فریقین اس پر جرح کرسکتے ہیں۔ گواہان کے بیانات کے مدّنظر قاضی مذکور اپنا فیصلہ تحریر کرتے ہیں۔ یہ ساری کارروائی عموماً تین سے چھ ماہ میں مکمل ہوجاتی ہے۔ دارالقضاء میں سماعت ہونے والے مقدمات کے لئے مندرجہ

ذیل مراحل مقرر ہیں:

قاضی اوّل: کسی بھی مقدمہ کی ابتدائی سماعت قاضی اوّل کرتے ہیں۔
مرافعہ اُولیٰ: عربی لفظ مرافعہ کے اصطلاحی معنی اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کے ہیں۔ قاضی صاحب اوّل کے فیصلہ کے خلاف اگر اپیل ہو تو اس کی سماعت کے لئے مقرر بورڈ مرافعہ اُولیٰ کہلاتا ہے۔ یہ اپیل بورڈ تین ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بورڈ کا تقرر ملکی صدر قضاء بورڈ کرتا ہے۔

مرافعہ عالیہ: مرافعہ اُولیٰ کے فیصلہ کے خلاف ہونے والی اپیل کی سماعت کے لئے مقرر بورڈ مرافعہ عالیہ کہلاتا ہے۔ یہ ادارہ دارالقضاء میں سب سے اوپر والا درجہ رکھتا ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے تاہم اس پر نظر ثانی کی اپیل ہو سکتی ہے، جسے مرافعہ عالیہ کا متعلقہ بورڈ ہی سنتا ہے۔ یہ بورڈ صرف مرکز سلسلہ ربوہ (پاکستان) میں قائم ہے۔ تمام ممالک کے مرافعہ اُولیٰ کے فیصلہ جات کے خلاف اپیل کی سماعت اسی بورڈ میں ہوتی ہے۔ اپیل کی سماعت و فیصلہ کے لئے صدر صاحب قضاء بورڈ ربوہ ایک پانچ رُکنی بورڈ تشکیل دیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں مرافعہ عالیہ کے فیصلہ کے خلاف خلیفۂ وقت کے پاس بھی اپیل ہو سکتی ہےجو درج ذیل ہیں:
1۔ اگر مرافعہ عالیہ کے فیصلہ میں کسی ممبر نے اختلاف کیا ہو۔
2۔ اگر مرافعہ عالیہ کے فیصلہ میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہو۔
3۔ خلیفۂ وقت کسی بھی وقت کسی بھی مقدمہ کی فائل اپنے پاس منگوا کر فیصلہ دے سکتے ہیں جو آخری فیصلہ ہو گا۔

دارالقضاء کا دائرہ اختیار

دارالقضاء جرمنی میں عموماً مندرجہ ذیل تین قسم کے مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے:

1۔ خلع
2۔ طلاق
3۔ مالی لین دین

خلع: جب علیحدگی کی ابتداء بیوی کی طرف سے ہو تو بیوی کی طرف سے ناظم صاحب دارالقضاء کے نام خلع کی درخواست دی جاتی ہے۔ درخواست خلع کی وصولی کے بعدناظم صاحب خاتون مذکور کے قریب ترین رہائشی قاضی اوّل کو مقدمہ کی سماعت و فیصلہ کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ اسلامی قانون کے مطابق یہ ضروری ہےکہ خلع قاضی کے ذریعہ لی جائے تا کہ قاضی عورت کے مختلف قسم کے حقوق کی حفاظت کرسکے۔ خلع کے مقدّمات میں قاضی اوّل کا علیحدگی کی حد تک فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تاہم مالی امور پر فریقین کو اپیل کا حق دیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ مالی اُمور کا فیصلہ فریقین کی باہمی رضا مندی سے طے پایا ہو۔

طلاق: جب علیحدگی کی ابتداء خاوند کی طرف سے ہو تو اسے طلاق کہتے ہیں۔ اسلامی قانون کے مطابق طلاق دینے کا حق مرد کو دیا گیا ہے۔ خاوند خود تحریری طور پر دو گواہان کی موجودگی میں طلاق نامہ لکھ کر اپنی بیوی کو دیتا یا بذریعہ رجسٹری پہنچاتا ہے۔ پھر قانونی کارروائی کے لئے طلاق نامہ کی نقل کے ساتھ ناظم صاحب دارالقضاء کے نام درخواست دیتا ہے جس پر دفتر قضاء کی طرف سے فریقین کے مابین قرآنی حکم کے تحت تحکیم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تاکہ فریقین باہمی صلح پر آمادہ ہوسکیں۔ اس تحکیم کے ذریعہ صلح میں ناکامی کی صورت میں ناظم صاحب دارالقضاء خاتون کے قریب رہائشی قاضی صاحب اوّل کو مقدمہ کی سماعت و فیصلہ کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ قاضی صاحب فریقین کو بُلا کر عدت کا تعیّن کرتے ہیں اور عدّت کے اختتام تک عدم رجوع کی وجہ سے طلاق کے مؤثر ہو جانے پر قاضی صاحب اوّل شرعی حقوق کا فیصلہ کرتے ہیں۔

دارالقضاء کا فیصلہ ثالثی حیثیت رکھتا ہے۔ عائلی مقدمات(خلع، طلاق) کے لئے فیصلہ میں یہ لکھنا ضروری ہے کہ ‘‘یہ فیصلہ شرعی حیثیت رکھتا ہے اور علیحدگی کی تصدیق ملکی عدالت سے کروانا فریقین کے لئے لازمی ہوگا’’۔ عدالت عموماً قضاء کے فیصلہ جات کو بنظر استحسان دیکھتی ہے۔ قضاء میں ایسے مقدمات ناقابلِ سماعت ہیں جو قابلِ دست اندا زی پولیس ہوں یا اس نوعیت کے ہوں جو سرکاری دائرہ کار میں آتے ہیں۔ علیحدگی کے فیصلہ کے علاوہ دوسرے اُمور پر فریقین کو 30 یوم کے اندر اپیل کرنےکاحق دیا جاتا ہے جس کی سماعت صرف مرکز ربوہ میں قائم مرافعہ عالیہ بورڈ کرتا ہے۔

مالی لین دین: احباب جماعت میں کسی مالی لین دین کے تنازعہ کی صورت میں بھی ناظم صاحب دارالقضاءکو تنازعہ کا فیصلہ کرنے کے لئے درخواست دی جاتی ہے۔ ناظم صاحب تنازعہ پر فیصلہ کے لئے ایک قاضی اوّل مقرر کرتے ہیں۔ یہ اَمر ضروری ہے کہ لین دین کا معاملہ دیوانی نوعیت کا ہو۔ چنانچہ ملکی قانون کے اندر رہتے ہوئے ثالثی اقرار نامہ میں دئیے گئے اختیار کی روشنی میں اس مقدمہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

مالی لین دین کے مقدمات کی اپیل دارالقضاء جرمنی میں ہوتی ہےجس کی سماعت کے لئے صدرصاحب اپیل کی سماعت کے لئے تین ممبران قضاء پر مشتمل ایک بورڈ مقرر کرتے ہیں۔ مرافعہ اُولیٰ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت مرافعہ عالیہ ربوہ پاکستان میں ہوتی ہے۔

قضاء کا نظام جماعت کے اندر مکمل طور پر آزاد ہے، انتظامیہ کا قطعاًکوئی دخل نہیں ہے۔ تاہم نظامِ جماعت قضائی فیصلوں کی تنفیذ کرواتا ہے۔ قضاء کا طریقِ کار بہت مفید،آسان، محفوظ اور مفت ہے۔